Sunday, August 23, 2009

CHEENI Scandel

زور آور لٹیرے


جب سے حکومت نے عوام کو لالی پاپ دے کر بہلانا شروع کیا ہے تب سے اس کی فروخت میں دن دوگنا رات چوگنا اضافہ ہوا ہے۔ جب بھی حکومت کسی مسئلے کو حل کرنے میں بری طرح ناکام ہوتی ہے اور عوام کے سامنے کوئی جواب نہیں بن پڑتا تو وہ اپنی نااہلی کو چھپانے کے لئے لالی پوپ کا سہارا لیتی ہے۔ ملک میں موجود بلیک مافیا روز بروز زورآور ہوتی جارہی ہے۔ پہلے تجارت اور سیاست دو الگ چیزیں تھیں لیکن جب سے تاجر ایوانِ تجارت سے ایوانِ اقتدار تک اور سیاستدان ایوانِ اقتدار سے ایوانِ تجارت تک پہنچے ہیں‘ تجارت اور سیاست آپس میں ضم ہوکر ایک ہوگئے ہیں۔ اور یہی وہ زورآور طبقہ ہے جس نے مختلف اوقات میں مختلف اشیاءکی مصنوعی قلت پیدا کرکے غریب عوام کا خون نچوڑا ہے۔ رمضان المبارک سے قبل چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرکے مہنگائی کا جو طوفان برپا کیا گیا ہے اس میں انہی زورآوروں کا عمل دخل ہے۔ یہ طبقہ ہمیشہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اقتدار میں موجود رہتا ہے۔ یہ خود یا ان کے نمائندے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی بینچوں پر موجود ہیں۔ ان سارے لٹیروں کا ایک دوسرے کے مفادات کے تحفظ کے لئے ایسا اشتراک ِعمل ہے کہ اپنے خلاف کسی جانب سے کوئی محاذ قائم نہیں ہونے دیتے۔ ایوانِ اقتدار اور اختلاف کی غالب اکثریت شوگر ملوں اور دیگر فیکٹریوں اور صنعتوں کی مالک ہے۔ اسی لئے محترم وزیر خزانہ شوکت ترین پورے اعتماد کے ساتھ چینی کی مصنوعی قلت کے ذمہ داروں کی نشاندہی کرکے عوام کو باور کرارہے ہیں کہ کوئی ان کا کوئی کچھ بگاڑ سکتا ہے تو زورآزمائی کرکے دیکھ لے کیونکہ یہ مصنوعی قلت پیدا کرنے والے حکومت اور اپوزیشن دونوں جانب موجود ہیں، جن کے نمائندے شوکت ترین خود ہیں جو شوگر ملز کے مالک بھی ہیں۔ عوام ان لٹیروں کا کیا بگاڑ سکتے ہیں! کیا تماشا ہے‘ چینی کا مصنوعی بحران پیدا کرکے عوام الناس پر مہنگائی کے کوڑے برسانے والے خود ایوانِ اقتدار میں بیٹھے ہیں اور خود حکومتی رٹ کو چیلنج کررہے ہیں‘ مگر ان کے خلاف کارروائی کا یارا کسی میں نہیں۔ ہو بھی کیسے سکتا ہے‘ اگر امیرِ وقت خود رہزنوں کی پشت پناہی پر کمربستہ ہو تو شرطے کیا کریں؟ حکومت نے رمضان المبارک کے دوران عام شہریوں کو اشیائے خورونوش کی کم داموں فراہمی کے لئے رمضان پیکج کا اعلان کیا ہے‘ جس کے تحت تیرہ اشیاءپر دو ارب بارہ کروڑ روپے سسبڈی دی جائے گی۔ وفاقی وزیر صنعت و پیداوار کے مطابق آٹا، چاول، دالیں، چینی، گھی، کھجور، مشروبات، چائی، چنا اور بیسن جیسی اشیاءیوٹیلٹی اسٹورز پر سستے داموں فروخت کی جائیں گی۔ قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ سستی اشیاءصرف یوٹیلٹی اسٹورز پر ہی کیوں فروخت کی جائیں جس سے دور دراز علاقوں کے رہنے والے یا گاﺅں اور چھوٹے شہروں کے رہنے والے جہاں یوٹیلٹی اسٹورز کی سہولت نہیں ہیں اس پیکج سے مستفید نہیں ہوسکتے۔ جبکہ یوٹیلٹی اسٹورز پر ایک کی شرط پر دوسری شے خریدنے کی شکایات عام ہیں۔ زرِتلافی کا فائدہ بیشتر یوٹیلٹی اسٹورز مالکان اس طرح اُٹھاتے ہیں کہ ضروری اشیاءخفیہ طور پر مہنگے داموں فروخت کرکے عام لوگوں کے لئے قلت پیدا کردیتے ہیں۔ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے غریب عوام کے لئے رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے کا اہتمام کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ رمضان آنے سے پہلے ہی مہنگائی کا رمضان بجٹ سامنے آکر عوام کی چیخیں نکلوادیتا ہے۔ رمضان المبارک میں مہنگائی کا جن بے قابو ہوکر عوام کو بری طرح رگید کر رکھ دیتا ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ صرف رمضان ہی میں نہیں بلکہ پورے سال اشیاءخورونوش اور دیگر ضروری اشیاءسستی رکھنے کا اہتمام کرے۔ ملک میں مہنگائی کی مجموعی صورت حال کا تقاضا ہے کہ حکومتی طور پر ایسا انتظام کیا جائے کہ غریب لوگوں کو تمام ضروری اشیاءان کے گھروں کے قریب عام دکانوں پر سستی مل سکیں۔ وفاقی وزیر صنعت و پیداوار منظور احمد وٹو کے دعوے کے مطابق 20 فیصد عوام کی ضروریات کے لئے اشیائے خورونوش فراہم کی گئی ہے۔ اس اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس بنیادی اشیائے ضرورت کے نرخوں میں کمی کا نہ کوئی منصوبہ ہے اور نہ ہی کوئی ارادہ۔ ہر حکومت مختلف اوقات میں اس طرح کے منصوبوں کا اعلان کرکے عوام الناس کو لالی پوپ سے بہلاتی رہی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی قیادت رمضان المبارک کے موقع پر قیمتوں میں اضافے کو روکنے میں سنجیدہ ہی نہیں ہے۔ قیمتوں میں اضافے کا سبب خود حکومتی پالیسیاں ہیں اور نرخوں میں اضافے سے حکومت اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے دونوں فریق دولت کماتے ہیں‘ اور یہ فریق اب تک اپنے اثاثوں میں اربوں روپے کا اضافہ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ملک بھر میں چینی کا بحران تاریخ کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے عوام کے لئے عذاب بن چکا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں چینی کے گوداموں پر چھاپے مارے جارہے ہیں تاکہ اسے کھلی منڈی میں لاکر اس کی قیمتوں پر قابو پایا جاسکے۔ اس سلسلے میں متعدد ذخیرہ اندوزوں کو گرفتار بھی کیا گیا جس میں صرف چھوٹے افراد ہی زد میں آئے‘ بڑی مچھلیوں پر تاحال ہاتھ نہیں ڈالا گیا‘ کیونکہ ہاتھ ڈالنے والوں کا شمار خود بڑی مچھلیوں میں ہوتا ہے۔ ایک اخباری خبر کے مطابق پندرہ لاکھ چینی کی بوریاں اب تک برآمد کی جاچکی ہیں لیکن اس کے باوجود چینی 60 اور 65 روپے فی کلو فروخت ہورہی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسے تمام اقدامات نمائشی ہیں۔ چینی کا تاریخی بحران شوگر ملز مالکان اور ٹریڈنگ کارپویشن آف پاکستان کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے جس کی پشت پر زورآور طبقہ موجود ہے۔ وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ٹریڈنگ کارپوریشن کو دو لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ قیمتوں کو کنٹرول میں رکھا جاسکے۔ جس وقت ٹریڈنگ کارپوریشن کو چینی منگوانے کی ہدایت کی گئی اُس وقت عالمی مارکیٹ میں چینی کی قیمت پاکستانی روپے میں تقریباً 10روپے 40 پیسے تھی۔ مگر ٹریڈنگ کارپویشن نے شوگر ملز مالکان سے ملی بھگت کرکے یہ سودا اتنا لیٹ کردیا کہ عالمی مارکیٹ میں چینی کی قیمت تقریباً 53,760 روپے فی ٹن تک جاپہنچی۔ جون میں پھر 50ہزار ٹن چینی درآمد کرنے کا ٹینڈر جاری کیا گیا جو بعد میں منسوخ کردیا گیا۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اپنے احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے پر ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے خلاف کوئی ایکشن لیا نہ ہی کسی قسم کی بازپرس کی۔ حکومت شوگر مافیا کے خلاف کارروائی نہ کرکے عوام دشمنی کا ثبوت دے رہی ہے۔ کوئی بھی مافیا خواہ کتنی ہی طاقت ور کیوں نہ ہو‘ حکومت سے زیادہ طاقت ور نہیں ہوسکتی۔ ملکی قیادت اگر مخلص ہوجائے تو شوگر مافیا سمیت ہر طرح کی مافیا کا ملک سے نام و نشان مٹ جائے۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ خلفائے راشدین کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے ویسا طرز حکومت اپنائیں اور دنیاوی عیش پرستی میں پڑ کر عوام کے حقوق غصب نہ کریں‘ بلکہ عوام کو وہ سہولیات بہم پہنچائیں کہ ان کے لئے زندگی گزارنا سہل ہوجائے ۔


No comments:

Post a Comment