Sunday, August 23, 2009

چینی کا بحران: ’سخت کارروائی کی جائے‘



عدالت نے یہ بھی ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر مفصل اور عملی اقدامات پر مبنی رپورٹ پیش کی جائے

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس خواجہ محمد شریف کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے ہدایت کی ہے کہ چینی کا بحران پیدا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔

چیف جسٹس نے یہ حکم چینی کی قیمت میں اضافے کے خلاف ازخود نوٹس پر کارروائی کرتے ہوئے دیا۔ عدالت نے یہ بھی ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر مفصل اور عملی اقدامات پر مبنی رپورٹ پیش کی جائے جبکہ چیئرمین ٹریڈنگ کارپوریشن پاکستان کو حکم دیا کہ وہ چھبیس اگست کو عدالت میں پیش ہوں۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے چینی کی قیمتوں میں اضافہ کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو طلب کیا تھا۔ اس معاملہ پر چیف جسٹس ہائی کورٹ نے جو دو رکنی بنچ تشکیل دیا ہے اس کے دوسرے رکن جسٹس اعجاز احمد چودھری ہیں۔

بدھ کو اٹارنی جنرل پاکستان سردار لطیف خان کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ چینی کے بحران پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں اور ماہ رمضان کے دوران چینی یویلیٹی سٹورز اور رمضان بازاروں میں اڑتاتیس روپے فی کلو ملے گی۔

عدالت کے روبرو سیکرٹری خوراک پنجاب عرفان الہیْ نے بتایا کہ چینی کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا ہے، اس کے دوران تیس ہزار ٹن چینی برآمد کی گئی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس خواجہ محمد شریف نے ریمارکس دیئے کہ حکومتی ارکان کی طرف سے متضاد بیانات سے یوں لگتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت میں ہم آہنگی نہیں ہے۔

چیف جسٹس ہائی کورٹ نے مزید کہا اگر حکومت نے عام آدمی کی بہتری اور سہولت کے لیے اقدامات نہ کیے تو کل کو عوام دوسرے لوگوں کو منتخب کر لیں گے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا ذخیرہ اندوز اس قدر طاقتور ہیں کہ حکومت ان کے خلاف اپنی رٹ قائم نہیں کر سکتی؟

عدالت نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ جب یہ معلوم تھا کہ ہر مرتبہ ماہ رمضان کے قریب ذخیرہ اندوز سرگرم ہو جاتے ہیں تو ان کے خلاف پہلے سے کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔

ادھر وفاقی حکومت کی ہدایت پر صوبائی حکومت نے چینی کی قلت کو پورا کرنے کے لیے جو کریک ڈاؤن شروع کیا تھا اسے بند کر دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر صنعت و پیدوار منظور وٹو نے شوگر مل مالکان سے ملاقات کے بعد اعلان کیا کہ صوبائی حکومت کو کارروائی کے لیے جو احکامات دیے گئے تھے وہ واپس لے لیے گئے ہیں۔


No comments:

Post a Comment